اڑنگ کیل 2500 میٹر کی بلندی پر ایک میدان نما وادی ہے، جہاں جانے کے لئے دریا کے پار ایک لفٹ لگی ہوئی ہے، جسے درست طور پر جھولا کہا جاتا ہے۔ جھولے سے دریا کراس کیا اور پرلی طرف جا کر چڑھائی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ بچے ساتھ ہونے کی وجہ سے رفتار اور بھی آہستہ تھی، کچھ پسینے گرانے کے بعد تقریبا 45 منٹ میں ہم اڑنگ کیل تھے۔
وہ وادی کیا تھی، تصویر کشی کے لئے ایک جنت تھی، پھیلا ہوا میدان جس میں مکئی کی فصل جا بجا نظر آتی تھی،پھولو ں سے مزین گھاس، لکڑی کے مخصوص کشمیری طرزکے گھر، اونچے پہاڑ جن کے سروں پر ابھی کچھ برف باقی تھی، اور ان پہاڑوں میں بادام اور چیڑ کے درخت۔ جی کھول کے کیمرہ اور موبائل فون کا استعمال کیا گیا۔ ان پہاڑوں کے پار ہمسایہ ملک کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔
میدان کے بیچوں بیچ کئی پگڈنڈیاں مختلف اطراف میں جاتی ہیں، ہم نے ایک مرکزی راہ لے لی، کچھ دور لکڑی کے نقش و نگار والی ایک خوبصورت مسجد بھی دیکھنے کو ملی۔
وہاں آبادی بھی ساتھ ہی ہے اور خواتین فصلوں کی نگہداشت میں مصروف عمل تھیں۔ گویا یہ گاؤں بھی ہے اور ہل سٹیشن بھی۔
کچھ گھوما گھامی کے بعد ایک ریسٹورانٹ میں کھانے کا آرڈر دیا اور اس کے لکڑی کے چبوترے پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ جس کا مزا آیا۔ وہیں ایک رنگ برنگا پتنگا ہم مہمانوں سے ملنے کے لئے بھی چلا آیا۔
ان ہوٹلوں میں رات بھی گزاری جاسکتی ہے۔ اگرچہ میرا خیال ہے کہ ان ہوٹلوں میں چھڑا پارٹی ٹائپ کمرے ہیں ، لیکن کچھ تلاش سے فیملی کے لئے بھی مناسب روم مل سکتا ہے۔
اسی دوران میں واپسی کا وقت آن پہنچا، چائے کی ایک پیالی پی اور واپسی کی راہ لی۔ بوجھل قدموں کے ساتھ اڑنگ کیل کو خدا حافظ کہا اور اترائی سے ہوتے ہوئے، جھولے سے گزر کر، گاڑی پر بیٹھ کر شاردہ کی طرف گامزن ہوئے۔